مضطر خیر آبادی
کی مشہور زمانہ بحر بل مجنون کی طویل غزل جو غالباً دنیا کی تام شاعری کی طویل ترین کہ میں ہے۔
اس غزل کا ہر مصرع بروزن فعلاتن تو ارکان پر تل ہے۔ (مرتبین)
پہلا مصرع
اُسے کیوں ہم نے دیا دل، جو ہے بے مہری میں کامل، جسے عادت ہے جفا کی، جے چڑھ مہر و وفا کی ، جسے آتا نہیں آنا غم و حسرت کا مٹانا، جو تم میں ہے یگانہ جے کہتا ہے زمانہ، بہت بے مہر و دغا باز ، جفا پیشہ فسوں ساز ، ستم خانه برانداز ، غضب جس کا ہر اک ناز ، نظر فتنه مژه تیر، بلا زلف گرہ گیر غم و رنج کا بانی قلق و درد کا موجب تم وجود کا استاد جفا کار میں ماہر، جو تم کیش و ستم گر جو تم پیشہ ہے دلبر، جسے آتی نہیں الفت ، جو سمجھتا نہیں چاہت، جو تلی کو نہ سمجھے، جو تشفی کو نہ جانے ، جو کرے قول نہ پورا کرے ہر کام ادھورا، یہی دن رات تصور ہے کہ ناحق اُسے چاہا، جو نہ آئے نہ بلائے، نہ کبھی پاس بٹھائے، نہ رخ صاف دکھائے، نہ کوئی بات بنائے، نہ لگی دل کی بجھائے ، نہ کلی دل کی کھلائے، نہ غم و رنج گھٹائے ، نہ رہ و رسم بڑھائے، جو کہو کچھ تو خفا ہو، کہے شکوے کی ضرورت جو یہی ہے تو نہ چاہو، جو نہ چاہو گے تو کیا ہے، نہ نا ہو گے تو کیا ہے، بہت اتراؤ نہ دل دے کے، یہ کسی کام کا دل ہے غم واندوہ کا مارا، ابھی چاہوں تو میں رکھ دوں اسے تلوؤں سے مسل کر ، ابھی منہ دیکھتے رہ جاؤ کہ ہیں! ان کو ہوا کیا کہ انھوں نے مرا دل لے کے مرے ہاتھ سے کھویا
دوسرا مصرع
بس اسی دھیان میں ہم تھے کہ ہوئی پاؤں کی آہٹ، نظر اٹھی تو یہ دیکھا کہ چلا آتا ہے وہ زہرہ جبیں، ماہ نہیں، طرفہ حسیں، پردہ نشیں ، لعبت چیس، در شمیں، دل کا سکیں، دشمن دیں، ساتھ مگر کوئی نہیں ، دھک سے ہوا دل کہ یہ اس وقت کہاں، اُس سے جو پوچھا کہ بتا خیر تو ہے، کیوں ادھر آیا، تو جواب اُس نے دیا ہنس کے، کہ یونہی، تجھے کیا کام کہ تو پوچھ رہا ہے، کوئی قاضی ہے کہ مفتی ، ترا کیا آتا ہے دینا، جو مجھے ٹو کے وہ تو کون ، ترا کیا ہے اجارہ، یہ کہا اور مرے پاس ہی یوں بیٹھ گیا داب کے زانو، بس ادھر دیکھ اُدھر دیکھ ، مرے دل کو ٹٹولا ، پر وہاں دل کا پتہ کب تھا جو ملتا اُسے، ناچار کہا کیوں جی! کوئی اور بھی دل ہے، ہمیں حاجت ہے جلانے کی ، دُکھانے کی، ستانے کی ، گڑھانے کی، مثانے کی، اگر دو تو بڑا کام کرو ہن کے یہ بات اُس سے کہا میں نے کہ کچھ خیر تو ہے، ایک ہی دل تھا سو وہ ٹولے ہی گیا، دو بھی کہیں ہوتے ہیں دنیا میں کسی کے جو تو لینے کو ہے آیا تو وہ بولا اچھی جاؤ، ذرا تم جی میں تو شرماؤ بھلا حکم اٹھایا کہ مری بات ہی کائی نہیں دیتے ہیں جواب ایسا ٹکا سا ارے تو بہارے تو بہ چلو بیٹے رہو باتیں نہ بناؤ تم اسی منہ سے یہ کہتے تھے تمہیں ہم سے محبت ہے ہو جاؤ محبت کا بھلا نام ڈبویا
تیسرا مصرع
کبھی اُن کو جو سنا یا غم دل ، ہنس کے وہ بولے کہ بڑے جھوٹے ہو، تو یہ وہ سناتے ہو کہانی کہ یقیں جس پہ نہ آئے ، وہ بیاں کرتے ہو قصہ جو ذرا دل کو نہ بھائے، تم اسے چھوڑ وہ اچھی نہیں یہ بات کہ گڑھ گڑھ کے سناتے ہو فسانہ، ابھی دس اور سنیں اس کو، تو کیا جی میں کہیں تم تو بڑے وہ ہو، خدا تم سے بچائے، چلو جاؤ ہمیں نیند آئی ہے ہم سوئیں گے، چولہے میں گئیں آپ کی باتیں، مری نیند اڑ گئی سن کر، مجھے آنے لگے چکر ، مرادل ہو گیا معطر نہیں سنتے کہ ہوا کیا، کبھی سنتے ہیں کہانی، مگر ایسا بھی غضب کیا، کہ نہ سر ہے نہ کہیں پیر، وہی بانک دی جو آگئی جی میں تمہیں لازم نہیں ایسا، ذرا دیکھو، اسی دنیا میں بہت لوگ حسینوں پہ فدا ہیں، انھیں کیا کہ نہیں آتا ہے، وہ کیا کچھ نہیں کہتے ہیں، مگر یوں نہیں کہتے ، کہ الل ٹپ جو ہوئی ضد تو ہوتی ضد ، جو لگی ہٹ تو لگی ہٹ، جو بندھی دھن تو بندھی دھن، نہ غم دل شکنی ہے، نہ سر کم سنی ہے، جو ٹھنی ہے تو ٹھنی ہے، کہیں ان باتوں میں تم کھاؤ گے دھو کہ کہیں تم کھاؤ گے منہ کی نہ ملے گا کوئی ثمرہ تمہیں سب لوگ کہیں گے، یہ وہی ہے کہ جسے ضبط کا یارا نہیں، خاموشی گوارا نہیں ، جب ہوگی یہ تشہیر، تو ہو جاؤ گے ہلکے، نہ کہے گا کوئی راز اپنا کہ ایسا نہ ہو کہہ دو، جو بنی بات بھی بگڑے
چوتھا مصرع
جو سنا میں نے تو تلوؤں سے لگی سر پہ کبھی ، پھٹ سے کہا منہ پہ کہ جارے بہت عیار، جفا کار، ستمگار، دل آزار تجھی کو ہے سزاوار، کہ سیدھی کو تو الٹی کہے اُلٹی کو تو سیدھی، کرے بے مہری کی بوچھار غم و رنج کی بھر مار، تجھے پاس محبت، نہ محبت سے مرد کار، نہ الفت سے علاقہ، نہ ہے الفت کا خریدار، نہ چاہت سے تعلق ، نہ تو چاہت تجھے درکار ، فقط اپنی ہی صورت پہ ہے وہ ناز کہ رکھتا ہی نہیں پاؤں زمیں پر بہتری نظروں میں چمن دشت ہے گل خار ، پر اچھی نہیں یہ بات ، سنا تو نے یہ ہوگا ، کہ عزازیل کو اللہ نے سجدے کے نہ کرنے پہ کیا مور د لعنت، وہ ملک ہو کے ہوا مفت میں شیطاں ، تو تری اے بہت کافر نہیں کچھ خاک بھی ہستی، یہ جوانی کہ جو اترائے لیے پھرتی ہے تجھ کو یہ چلی جائے گی دو دن میں، یوں جیسے کہ دم صبح کا جھونکا، تجھے اُس وقت کروں گا میں سلام اے بہت کافر، کہ کہاں ہے وہ تغافل، وہ تجاہل، وہ تبخر ، وہ تکبیر، وہ تبسم، وہ شرارت ، وه حرارت، وہ غضب ناز، وہ شوخی ، وہ ستم عشوہ ، وہ تیزی، وہ بلاقہ ارائیں، وہ تری زہر جفائیں، وہ قیامت کی نگا ہیں، وہ تر اروپ وہ رنگت ، وہ ترا احسن وہ چھل بل ، جو گیے یہ تو دوبارا نہیں تو پائے گا ہرگز ، رہے گولاکھ تو سو جان سے جو یا
پانچواں مصرع
یہ تماشہ ہے کہ الٹی ہوئی مجھ سے انھیں الفت ، مجھے نفرت انھیں رغبت، مجھے کلفت انھیں حسرت، مجھے حیرت ، کہ ہنسی آتی ہے مجھ کو انھیں رونا ، وہ مرے عشق میں روتے ہیں، میں ہنستا ہوں ، وہ کرتے ہیں شکایت، مجھے ہوتا ہے تکدر، وہ وفاؤں کے ہیں طالب، مجھے منظور جفائیں ، وہ محبت کے طلب گار، میں اس رسم سے بیزار ، انھیں چاہ کا ارمان، مجھے ظلم کی خواہش کہ مجھے جیسے ستایا ہے یو نہی اُن کو ستاؤں ، مجھے جس طرح جلایا ہے یونہی اُن کو جلاؤں، مجھے جس طرح دلایا ہے یونہی اُن کو رلاؤں، مجھے جس طرحگڑھایا ہے یونہی اُن کو گڑھاؤں، جو وہ ہوں مہر کے طالب، تو کروں جور و جفا میں، جو وفا چاہیں کہ برتوں، تو کروں اُن سے دغا میں، وہ خوشی چاہیں تو غم دوں، جو بچن چاہیں تو دم دوں، جو کروں وعدہ فردا، تو مہینوں نہ خبر لوں، جو کروں آج کا اقرار، تو برسوں میں ہو پورا ہو وہ پورا بھی ہو کیسے کہ بلوں مل کے ستاؤں قلق رنج بڑھاؤں، جو کہیں کچھ تو کہوں رہنے دو فرصت نہیں سننے کی بہنوں بھی تو بس اس کان سے اُس کان اُڑا دوں ، وہ کہیں بہر خدا رحم کرو مجھ سے مصیبت نہیں اٹھتی یہ نیا رنگ زمانہ ہے کہ میں تم پہ فدا ہوں کرو تم یاد وہ گھڑیاں کہ مری چاہ میں تم رہتے تھے گریاں ، یہ تم کیا ہے کہ معشوق سے رہتے ہو کشیدہ و کبیدہ
چھٹا مصرع
بٹھاتے نہیں شک اس میں ذرا بھی ، پیشل سچ ہے کہ آتا ہے، کیا اپنے ہی آگے، اُنھیں دیکھو کہ تاتے تھے جلاتے تھے رُلاتے تھے مرے دل کو ، دکھاتے تھے گڑھاتے تھے مہینوں صفت شمع گھلاتے تھے ، جفاؤں کو بڑھاتے تھے، محبت کو گھٹاتے تھے ہستم مجھ پہ وہ ڑھاتے تھے کبھی منہ کو چھپاتے تھے کبھی آنکھ چراتے تھے نہ آتے تھے نہ جاتے تھے، فقط دور سے باتیں ہی بناتے تھے، نیا روز وہ طوفان اُٹھاتے تھے، مرے دل پہ بڑا رعب نے تھے، اب ایسے ہیں ، کہ میں اُن کو ستاتا ہوں، جلاتا ہوں رُلاتا ہوں، بہت دل کو دکھاتا ہوں گڑھاتا ہوں مہینوں صفت شمع گھلاتا ہوں جفاؤں کو بڑھاتا ہوں محبت کو گھٹاتا ہوں تم ان پہ یہ ڈھاتا ہوں نہ آتا ہوں نہ جاتا ہوں فقط دور سے باتیں ہی بناتا ہوں کبھی منہ کو چھپاتا ہوں بھی آنکھ چڑاتا ہوں، نیا روز میں طوفان اُٹھاتا ہوں، میں اُس دل پہ بہت رعب بٹھاتا ہوں جو وہ حال دکھاتے ہیں تو لاکھوں ہی سناتا ہوں وفاؤں پنظر ہے، نہ محبت کی خبر ہے جو ادھر حال تھا پہلے وہی ا رہی اب حال اُدھر ہے، جو یہ بدلا ہوا عالم ہے تو اس کا یہ اثر ہے، وہی اب سینہ سپر ہے، جو بنا پھرتا تھا قاتل، جو جفاؤں میں تھا کامل جو کیا کرتا تھا غمزے، یہ عجب رنگ محبت ہے کہ جو رنج سے روتا تھا، وہ ہنستا ہے، جو ہنستا تھا وہ رویا
ساتواں مصرع
پنے گلگشت گلستاں کو گئی اُن کی سواری جو چلی باد بہاری تو کھلی پھولوں کی کیاری کہیں کلیاں ہوئیں ظاہر کہیں غنچے ہوئے پیدا، کہیں بیلا، کہیں لالہ کہیں سوسن کہیں شبو کہیں جو ہی کہیں گیندا ، کہیں چمپا، کہیں نسریں کہیں نرگس ہوئی شاخوں پہ نمودار، وہ شاخیں جو برنگ سر تسلیم جھکیں ، تاکہ قدم لیں ، گل نورستہ خوبی کہ جسے تو کہے، شایاں ہے کہ جب تک ہے وہ خورشید نظر، رشک قمر ، غیرت گل ہائے چمن ہیم بدن ، ماہ جیں ، ہنچہ دہن ، دیکھے اگر اُس کی پھین، گل ہو وہیں شمع، لگے جس کی نظر سامری فن، جس کی مژہ تیر نکن، ہے یہ اسی کے لیے سامان مہیاء ہے اس کے لیے اسباب فراہم، کہیں سبزے کا بچھا فرش کہ سوئے وہ گل تر کہیں میوؤں کے لگے ڈھیر کہ کھائے وہ ستم بر نہیں پانی سے بھرے حوض کہ پی لے وہ ستم گر کہیں پڑی کی تمنا کہ قدم اس کے میں چوموں کہیں مہندی کی یہ خواہش کہ مجھے پیس ہی ڈالے، کہیں میوؤں کی یہ حسرت کہ ہمیں توڑ کے پھینکے کہیں شاخوں کا یہ منشا کہ یہاں سائے میں بیٹھے کہیں پانی کا یہ مطلب کہ یہاں آئے نہائے، کہیں پھولوں کا یہ ارمان کہ ہم سایہ فگن ہوں کہیں قمری کو جس کہ نئے جاتی ہے گو گو کہیں بلبل متلاشی کہ کدھر ہے بہت گل رو بت گل رُو
آٹھواں مصرع
جو گیا عالم وحشت میں یہ دیکھا کہ بڑی دھوم مچی ہے، بڑا ہنگامہ بپا ہے، مجھے معلوم ہوا، جذ بہ الفت کی بدولت کہ وہ آئیں گے، مجھے جن سے تعلق ہے، مجھے جن سے محبت ہے، لگاوٹ ہے ، اسی وجہ سے میں بیٹھ گیا تا کہ میں دیکھوں ، بہت طناز کا آنا کہ بس اتنے میں نمودار ہوا وہ گل رعنا، جسے خسرو نے کہا، تازہ جواں ، موئے میاں، پستہ وہاں ، آفت جاں، جان جہاں ، روز رنے ، زلف شبے ، درد ہے لعل لیے، یوسفے چہ در ذقنے، سینہ انارے ، گل بے زحمت خارے مل بے رنج خمارے بحن جملہ مسیحی، بزباں جملہ فصیح ، یہ نظر جملہ فنے، آہوئے ضیغم لگنے، زلف دو تا راه زنے عشوہ کنے ، غمزہ زنے ، چرخ ندیده به بصر در دو جہاں ہمچو بشر، گیسوئے مشکینش اگر دست رساند به کمر ور نه دریں راہ گزر کس فرساینده نظر هم، نه خزاں دیده بہارش ، نہ چوں بیدانہ انارش مرے نزدیک جو ایسا ہو، اُسے کیا۔لکھوں مضطر کہ وہ کیسا ہے، بعد ناز اُتر کے لگی تبلبل یہ سنانے ، کہ کیا دن یہ خدا نے ، جو لگے باغ تم آنے ، گل گلشن کو ہنسانے ، مرے سننے کو ترانے ، مرے نزدیک نہیں اس میں ذرا شک کہ پڑی جان چمن میں، یہ چمن جسم ہے، اس جسم کی تم ہی مری جاں جان ہو گویا۔
0 Comments